🌷* بسم الله الرحمن الرحیم*🌷
تاریخی سیستان میں امام حسین کے خون کی ہوس کے خلاف پہلی بغاوت کا بیان۔ سیستان (بلخ سے دریائے سندھ تک)
سیستان کے لوگ جو اہل بیت سے عقیدت میں شاندار ماضی کے حامل ہیں اور جب بنی امیہ حکومت کے زمانے میں پوری عالم اسلام کے منبروں پر حضرت علی ع کو لعنت بھیجنے کا فرمان دیا گیا تھا ، تو سیستان کے لوگوں نے اس گھٹیا کام کو نہ مانا اور اس کی مذمت کرتے ہوۓ یزید کے اس حکم پر مقابلہ کیا ۔ اسی کی وجہ سے بنی امیہ کی حکومت نے اس خطہ میں امن قائم کرنے کے لیے سیستان کے لوگوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا کہ امیر المؤمنین علی ع کو منبروں پر لعنت نہیں کریں گے (1)
اور سن 45 میں انہوں نے سیستان کے حکمران کو سیستان کے خطبوں میں لعنت نہ بھیجنے پر دھمکی دی۔ (2).
61 ہجری کے ابتدائی مہینوں میں کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی خبر اہل سیستان تک پہنچی۔ تو یزید بن معاویہ اور عبید اللہ بن زیاد کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہو گئے(3)
عباد بن زیاد کی حمایت اس کے بھائی عبید اللہ کے اقدامات پر- جس کے اس کے بھائی کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے (4)- اور لوگوں کا احتجاج کرنا اس واقعہ کے مرتکب ہونے والے باشندوں پر، بنی امیہ حکومت اور لوگوں کے درمیان جدایی اور دوری کا سبب بن گیا۔
اور اسی کی وجہ سے حکومت کے خلاف بہت سی بغاوتیں، واقعہ کربلا کے خونخواہی کے لیے شروع ہو گئیں۔
سیستان کے ناامنی کی خبر یزید کو پہنچ گئی۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور امام سجاد علیہ السلام کے یزید کے خلاف لوگوں کو آگاہی دینا اور عالم اسلام میں بنی امیہ کی حکمرانی کے خلاف مظاہروں کا مزید امکان، سبب بنا کہ یزید معاشرے کے امن کو برقرار رکھنے لیے، عبید اللہ کو امام حسین علیہ السّلام کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے کا سبب بنا۔ اور یزید نے ابن مرجانہ پر لعنت کی اور کہا: ابن زیاد نے مجھے حسین (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان نفرت انگیز بنا دیا۔ اور ان کے دلوں میں مجھ سے دشمنی کا بیج بو دیا۔ اور چونکہ حسین علیہ السلام کا قتل لوگوں کو مہنگا پڑ گیا اس لیے اچھے برے سب مجھے دشمن سمجھتے ہیں۔ (5).
اور اس چال سے اس نے بظاہر اپنے آپ کو جھٹلایا۔
عبید اللہ کے ہاتھوں حسین کے قتل کے خلاف احتجاج کا دائرہ زیاد کے خاندان تک بھی پہنچ گیا جس خاندان میں سے عثمان بن زیاد عبید اللہ کے بھائی بھی تھے ۔ اس نے کہا: میں خدا سے چاہتا ہوں کہ بنی زیاد میں سے ہر ایک کی ناک میں قیامت تک انگوٹھی ہو، لیکن حسین علیہ السلام کو قتل نہیں کیا جاتا۔”
اور عبید اللہ نے اس کے بیان پر اعتراض نہیں کیا (6) اور عبید اللہ کی والدہ مرجان بھی عبید اللہ کے اس فعل پر اعتراض کرنے والوں میں سے ایک تھیں (7)
زیاد کے بچوں میں سے جن کی عبید اللہ اور عباد سے شدید دشمنی تھی۔ سلم بن زیاد تھا 8)
سلم بن زیاد (جو سیستان پر حکومت کرنے کی تاریخ رکھتے تھے اور ان کی روح سے واقف تھے) (9) شام میں تھے تو وہ یزید بن معاویہ کے پاس گئے۔ اس وقت ان کی عمر چوبیس برس تھی۔
یزید نے اس سے کہا: اے ابو حرب (کنیت سلم بن زیاد) میں تمہیں تمہارے بھائیوں عبدالرحمٰن اور عباد کا کام دیتا ہوں۔ اس نے کہا: امیر المومنین جو چاہے۔ وہ کہتا ہے: چنانچہ اس نے اسے صوبہ سیستان و خراسان کا والی مقرر کر دیا… (10)
کیونکہ احتجاج کو خاموش کرنے کے لیے یزید نے سیستان اور خراسان کی حاکمیت عبید اللہ بن زیاد (بصرہ کے حکمران) سے چھین لی۔ جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت میں شامل تھا۔ اور سلم بن زیاد کو سیستان اور خراسان کا حاکم مقرر کردیا۔
جب عبید اللہ کو سیستان اور خراسان کی گورنری سے ہٹانے کی خبر پہنچی تو عبید اللہ نے یزید کے پاس کسی کو بھیجا اور بتایا کہ میری سلم سے زیادہ تجھ سے وفاداری تھی اور مینے آپ کی بہت خدمت کی اور میں خود جا کر کفار اور ترکوں سے لڑوں گا۔
یزید نے جو امام حسین علیہ السلام کے قتل کی وجہ سے ملک میں بغاوتیں ایجاد کی تھیں اور جنگ کرنے سے معاشرے میں آران و سکون نہیں مل سکتا، اس کے پیغام کے جواب میں کہا: ’’میرے لیے سلم تم سے بہتر ہے۔
سلم نے یزید بن معاویہ کے خبردار ہوتے ہوئے اپنے بھائی یزید بن زیاد کو سیستان کا حاکم منتخب کیا (12)۔
عبید اللہ بن زیاد نے اپنے بھائی عباد کو جسے بہت پیارے رکھتے تھے ، خط لکھا(13) اور اسے سلم کی گورنری کی خبر دی۔
عباد جو کہ سیستان کے لوگوں کی بغاوتوں اور مظاہروں کا سامنا کر رہا تھا اور اسے سیستان کی حکومت میں رہنے کی کوئی امید نہیں تھی، جب اسے معلوم ہوا کہ سلم سیستان کی طرف آ رہے ہیں، سنہ 62 ہجری کے پہلے مہینوں محرم یا صفر میں، جو کچھ بیت المال میں رکھا ہوا تھا، اپنے غلاموں میں بانٹ دیا۔ اور جو کچھ بچا تو دوسروں کو دے دیا ۔اور سیستان کو چھوڑ کر چل گیا (14)۔ پہر سیستان بغیر کسی حاکم کے رہ گۓ۔
اور تقریباً 15 دن (15) گذرے تو وہ جیرفت کے پہاڑوں تک پہنچے۔ رات کے وقت اس کو اطلاع ملی کہ سلم وہاں ہے۔ ان کے درمیان ایک پہاڑ ہے، اور چونکہ وہ سلم کو دیکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے، وہ وہاں سے گزر گئے۔
اس رات ان کے ساتھ 1,000 غلام تھے جن میں سے ہر ایک کے پاس کم از کم 10,000 درہم تھا (16)
سلم تقریباً 15 دن بعد سیستان پہنچے۔ سیستان کے لوگوں کی سلم سے واقفیت اور عباد اور عبید اللہ کے ساتھ ان کے فکری اختلاف کی وجہ سے سیستان کے لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور جب سلم بن زیاد نے اپنے بھائی یزید بن زیاد کو سیستان میں مقرر کیا تو اس نے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ 17)
سیستان کا یہ بیمثال عمل جو امام حسین علیہ السلام کی خونخواہی کے لیۓ یزید کے حکمرانی کے دوران بنا تھا ، ایرانیوں کے لیۓ بالخصوص سیستانیوں کے لیۓ بہت بڑا فخر ہے جو تاریخ میں لکھ دیا گیا ہے ۔
*حوالہ جات*
1- المعجم البلدان، باب سجستان، ص 191 اور الغدیر کا ترجمہ، جلد 20، ص 103 ( قال الرهنی: اسی کی وجہ سے اس نے علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو مشرق اور مغرب کے منبروں پر لعنت بھیجی اور منبروں کو ایک بار کے سوا کسی نے لعنت نہیں بھیجی اور انہوں نے اتنا بنی امیہ کے حکم سے پرہیز کیا جب کہ یہ پرہیز سبب بنا کہ کوئی بھی منبروں پر اس کو لعن نکرے … اور یہ کتنی اچھی اور خوش نصیبی کی بات ہے جو رسول اللہ کے پیارے بہایی پر لعنت بہیجنے سے پرہیز کیا اور وہ مکہ اور مدینہ کی منبروں پر لعنتیں بہیجتے رہے ۔
2- سیستان کے علماء، بزرگان اور حکمرانوں نے کہا: ہمیں ایک ایسے امام کی ضرورت ہے جو حق پر امام ہو جیسا کہ سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اور اب علی بن ابو طالب اس حق پر کھڑے ہیں، اور معاویہ نے آپ کو یہاں بھیجا ہے۔ اور اہل تہلیل کے اسّی ہزار آدمی ان میں سے مارے گئے۔ یہ خطبہ اور دعا درست ہونی چاہیے۔ آئیے اس جملے کو جیسا ہے قبول نہ کریں۔ (تاریخ سیستان، ص 89۔)
3- گمنام، تاریخ سیستان/100۔
4- طبری، محمد بن جریر، طبری کی تاریخ، جلد 7/3088، ابن اثیر، عز الدین علی، الکمال فی التاریخ، جلد 4/96۔
5- طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج 5/506۔
6- طبری، محمد بن جریر، طبری کی تاریخ کا ترجمہ، ج 7/3082
7- پیشوائی، مہدی، تاریخ اسلام سقیفہ سے کربلا تک/476
8- “لیکن یزید ابن معاویہ نے سلم بن زیاد کو، جو اس کے اور اس کے بہایی عبید اللہ بن زیاد کے درمیان بہت ضدیت تھی، حاکم مقرر کیا” البلدان/131۔
9- طبری، محمد بن جریر، طبری کی تاریخ کا ترجمہ، جلد 5/2015
10- وہی، ج 7/3087 اور 3088۔
11- بلامی، محمد بن محمد، طبری کی تاریخ، جلد 4/716
12- گمنام، تاریخ سیستان/100۔
13- ابن اثیر، عز الدین علی، الکمال فی التاریخ، ج4/96۔
14- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج5/472۔
15- اور جیرفت سے بم تک بیس فرسخ فاصلہ تہا (ابن الفقہاء، احمد ابن محمد، البلدان/416)، پھر نرماشیر تک سات فرسخ تہا، پھر فہرج تک سات فرسخ تہا جو مفازہ کی طرف تہے ۔ اور مفازہ سے سیستان تک ستّر فرسخ تہا۔ (ابن خردزبہ، عبید اللہ بن عبداللہ، المسالک و ممالک/49) جو ہے: 104 فرسخ۔ حموی کہتے ہیں: سیستان اور ہرات کے درمیان دس دن کا سفر ہے، جو اسّی فرسخ ہے (حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، جلد 3/190)، اگر ہم اس مضمون کو اونٹ سے سفر کرنے کا مسافت کا اندازہ لگائیں تو ہر فرسخ 5 یا 5.5 کلومیٹر ہوگا، یعنی وہ روزانہ تقریباً 40 کلومیٹر پیدل چلتے تھے۔ 104×5.5÷40=14.3
16- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج 5/472۔
17- گمنام، تاریخ سیستان/100۔ …………………………
…………………………………………………………….
بنی امیہ اور بنی مروان کے خلاف جنگ
جنگ کا سبب,: بنی امیہ کا منبروں پر اور نماز کے بعد حضرت علی ع پر لعن کا حکم دینا
جنگ کا مکان:سیستان کے شہر
زمان:45ھجری سے لے کر 132 ھجری تک ۔(امام حسن ع کے دور سے امام صادق ع کے دور تک)
ہدف:حضرت علی ع کا دفاع
مقابلے کا طریقہ: لعن نہ کرنا اور لعن کرنے کی اجازت نہ دینا اور اس لئے حکومت سے جنگ۔
نتیجہ :بنی امیہ نے سیستان میں مولا علی ع پر لعن ترک کر دی
سیستان کے اموی حاکم کا موخذہ
مواخذہ کی وجہ: حاکم کا سیستان کی مرکزی مسجد میں حضرت علی ع پر لعن کرنا۔
مکان: سیستان کے مرکز زرنج کی مسجد آدینہ۔
زمان: 45 ھجری قمری
ھدف اور مطالبہ: حق کے طریقے پر خطبے پڑھے جائیں
طریقہ کار: عوام اور سیستان کے فوجیوں نے مسجد موحد میں اموی حاکم کے خلاف اجتماع کیا۔
نتیجہ: 1-اموی حاکم نے لعن نہ کرنا تسلیم کر لیا۔ 2-اموی حاکم سیستان سے جانے پر مجبور ہوگیا
سیستان کے لوگوں کا آل زیاد اور یزید کی حکومت سے مقابلہ۔
مقابلے کی وجہ: امام حسین عاور ان کے ساتھیوں کی شہادت اور اھل بیت ع کی اسارت
مکان: سیستان کے مختلف شہر۔
زمان :61 ھجری سے 62ھجری تک(امام سجاد ع کا زمانہ)
ھدف:اھل بیت ع کا دفاع اور واقعہ کربلا کے ظالموں کے خلاف جنگ۔
طریقہ کار: یزیدی حکومت کے خلاف مسلح جنگ
نتیجہ: یزیدی حکومت کو سیستان میں شکست جس کے میں سیستان کے حاکم کو ہٹایا گیا اور ہم خیال حاکم کو لایا گیا
سیستان کے لوگوں کی حجاج بن یوسف اور عبدالملک بن مروان سے جنگ۔
قیام کی وجہ:ان حکومتوں کی دین نماز اور حضرت علی ع سے دشمنی
مکان: سیستان سے کوفہ تک۔
زمان: امام سجاد ع کے زمانے میں(82 ھجری)
ھدف: حکومت کا خاتمہ اور اھل بیت ع کےساتھ بیعت۔جس میں یالثارات الصلاۃ نعرہ بلند کیاگیا۔
طریقہ کار: شیعہ سنی مسلمانوں کا اجتماع اور مسلح لشکر کا اھتمام
نتیجہ: اموی مظالم کے آگے قیام کو شکست
سیستان کے لوگوں کی نہروانی خوارج کے ساتھ جنگ۔
جنگ کی وجہ: خوارج حضرت علی ع پر لعن کرتے تھے۔
مکان: سیستان کا ایک شہر جہاں کی اکثریت خاورج تھے۔
زمان:امام صادق ع کا دور (148ھجری)
ھدف: حضرت علی ع کے دشمنوں کا خاتمہ اور دینی اقدار کا قیام ۔
طریقہ کار: مولاعلی ع کے دشمنوں کا خفیہ طریقوں سے قتل۔
نتیجہ: حضرت علی ع کے دشمنوں کو قتل کیا گیا اور کچھ مومنین شہید ہوئے
…………………………………………………..
Reasons to prove the uprising of the people of Sistan in protest of
the event of Karbala
In the history book of Sistan, it is stated that when the news of the martyrdom of Imam Hussein (AS) and his companions by the Umayyad came to Sistan, the people of Sistan said: “Yazid did not take a good path by killing the descendants of the Prophet (peace be upon them). Some of them started a rebellion. Abbad handed over Sistan to the people of Sistan, twenty times ten thousand dirhams had been collected in the treasury from the spoils of Kabul and other possessions, and Basra. Abdullah bin Ziyad sent his brother Yazid bin Ziyad and his other brother Bu Ubaidah Ziyad to Sistan in the first year of sixty-two”( Sistan’s History, page 100).
The authenticity of a historical event can be proven in various ways: first, whether the book mentioned is reputable or not; second, whether the information provided is also mentioned in other historical sources; and third, whether historical evidence confirms it or not.
The credibility of the Sistan history book
The beginning of this book belongs to the fifth century AH and historians usually consider this book as a credible one because the author, historian of Sistan, used valuable sources that are not easily accessible today. It can be described as one of the three ancient Persian prose books: the history of Bal’ami, the history of Bayhaqi, and the history of Gardizi, which are currently famous. Perhaps, we can say that there are combinations, vocabularies, and terminologies in this book that make it appear older than Bayhaqi and Gardizi.
Mohammad Taghi Malik al-Shoara Bahar introduction to the book “History of Sistan” p.9
This book is a valuable book about the events of Iran in the first Islamic century.
Understanding and criticizing the sources and origins of the history of Iran after Islam p.13
The author’s information on some political, religious, and social events in Sistan is very valuable.
Article A Look at the History of Sistan p.14
A local historical evidence supports this
The background twenty years before the Karbala incident reported among the people of Sistan can be a great source for understanding what happened with the uprising of the people of Sistan after the Karbala incident. When a person explores the historical actions of a region, they might not see the necessary background initially, but based on the points mentioned, it can be said that this background existed in that area. Therefore, accepting the Sistan historical report in connection with the protest actions of the people of Sistan to the martyrdom of Imam Hussein and his companions can be valid for us. Even though this account is unique, we do not rely solely on historical accounts based on narration, sources, and documents, but we also look into confirmations and evidence, some of which are mentioned.
1- The people of Sistan were with Amir al-Mu’minin in the Battle of Siffin in the year 37 Hijri and were martyred in that battle. In the description of Abud Awud Sajistani, it is quoted that Emran from his ancestors was martyred in the Battle of Siffin in the ranks of Amir al-Mu’minin. (History of Damascus vol. 22/191.)
2- The threat of the Umayyad ruler to Sistan and the defense of Amir al-Mu’minin.
The history of Sistan in this regard writes: “When Abd al-Rahman ibn Samra wanted to settle in Sistan, the people of Sistan gathered, the scholars, nobles, and leaders of Sistan said: We must have an imam who is truly righteous, just as the tradition of Mustafa (peace be upon him) remains and now Ali ibn Abi Talib is in place, and Muawiya has sent you here and eighty thousand men from the people of truth have been killed among them. This sermon and prayer must be righteous. We will not be content with this situation…” History of Sistan, p. 89.
Resistance against the decree of the Umayyad dynasty to not curse Amir al-Mu’minin and to curse Imam Ali (peace be upon him) from 41 AH to 99 AH was one of the main objectives of the Umayyad caliphate. Ya’qut Hamawi (d. 626 AH) writes: “More significant than all the qualities mentioned [for the people of Sistan] is that Ali, the Commander of the Faithful (peace be upon him), was cursed in the pulpits of the East and West, but in Sistan, this only happened once, and the people of Sistan defied the Umayyad order. They even included in their pact that no one should curse from their pulpit, what greater honor is there than for them to defy the inappropriate order of cursing the brother of the Messenger of God (peace and blessings be upon him) from their pulpit, while that noble figure was being cursed from the pulpits of Mecca and Medina.”
The text discusses the historical events of Sistan related to a rebellion with other historical sources. It mentions the rule of Abad bin Ziyad over Sistan in the year 61 AH. There is an alignment in the accounts provided in the history of Sistan with other historical sources. It also talks about the insecurity in Sistan and movements against the rule after the martyrdom of Imam Hussein in the region.
The relationship between changes in governance in Sistan and Khorasan and the consequent change in the ruler of Sistan with the event of Karbala | Complete in History, Vol. 4, p. 96
The exit of the slaves from Sistan after the martyrdom of Imam Hussein (AS) (Tabari History, Vol. 5, p. 471, Complete in History, Vol. 4, p. 96)
Being rulerless in Sistan for a period of time (Tabari History, Vol. 5, p. 472, Complete in History, Vol. 4, p. 96, Translation of Ibn Khaldun’s History, Vol. 2, p. 217)
Collecting war spoils and their exit from Sistan (Tabari History, Vol. 5, p. 471, Complete in History, Vol. 4, p. 96, The End of the Prophets in the Arts of Literature, p. 20 and 483…)
The association of Abu Ubaydah with Yazid ibn Ziyad in Sistan (Complete in History, Vol. 4, p. 97, Al-Ma’arif, p. 348)
The exit of the slaves from Sistan and the presence of Yazid ibn Ziyad in the early days of year 62 (Based on the books of the History of Damascus, Vol. 26, p. 234. History of Khalifa ibn Khayyat, p. 219 with the book of Al-Ma’arif of Ibn Qutaybah, p. 348.)
The only thing that seems to distinguish the account presented in the history of Sistan from other sources is that the history of Sistan mentions the sending of Yazid bin Ziyad by Ubaidullah, but as mentioned, Yazid bin Muawiyah deprived Ubaidullah of the governance of Sistan and Khorasan and entrusted it to Salam bin Ziyad. Therefore, Ubaidullah no longer had any authority over the governance of Sistan.
Salam bin Ziyad was appointed Yazid bin Ziyad to the governance of Sistan (Ansaab al-Ashraaf, vol. 5, p. 373, History of Tabari, vol. 5, pp. 471-473).
The absence of opposition to the rejection of this incident
In none of the historical books, any evidence has been found to refute this except for one account.0